منگل، 30 اگست، 2022

حالت حمل میں طلاق

Divorce in pregnancy

حالت حمل میں طلاق

سوال

میری شادی کو چار سال ہوگئے ہیں،میری پہلی شادی ہے اور میری  بیوی کی مجھ  سے دوسری شادی ہے، ان کی پہلی شادی سے ایک بیٹی ہے،جوکہ اب گیارہ سال کی ہے، میرے ان سے دو بیٹے ہیں اور ابھی میری بیوی حاملہ ہے، میری بیوی مجھ سے ان دنوں لڑائی جھگڑے کی وجہ سے مجھ سے خلع لینا چاہتی ہے، میں اس کو خلع دینے پر راضی بھی ہوں، مجھے معلوم یہ کرنا ہے کہ اس حالت میں طلاق/خلع ہوجاتی ہے؟ اور دوسرا یہ پوچھنا تھا کہ وضعِ حمل تک میری کیا ذمہ داری ہے؟ اور وضع حمل کے بعد میری کیا ذمہ داری ہے؟ شریعت اس بارے میں  ہمیں کیا حکم دیتی ہے؟

جواب

1۔بلاوجہ طلاق دینا شریعت میں انتہائی ناپسندیدہ امر ہے، اس لیے بجائے طلا ق کے حتی الامکان نباہ کی کوشش کرنی چاہئے ، اور اس سلسلے میں دونوں خاندان کے معزز اور سمجھدار بزرگ افراد کے ذریعے اس مسئلہ اور اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، طلاق سے شیطان خوش ہوتا ہے، اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں، تاہم اگر طلاق دینا ناگزیر ہو تو حاملہ ہونے کی حالت میں بھی طلاق دی جاسکتی ہے اور اس حالت میں بھی طلاق واقع ہوجائے گی،اگر طلاق دے دی گئی تو عورت کی عدت وضع حمل  (بچہ کی پیدائش )سے مکمل ہوجائے گی۔

صورتِ مسئولہ میں شوہر اگر اپنی بیوی کو دورانِ حمل طلاق یا خلع دےگا تو وہ واقع ہوجائے گی، ایک یا دو  طلاقیں دینے کی صورت میں وضعِ حمل سے پہلے رجوع کرسکتا ہے، خلع کی صورت میں رجوع کی گنجائش نہيں ہوگی، البتہ تجدیدِ نکاح کے بعد دوبارہ ساتھ رہ سکتے ہیں۔

2۔طلاق یا خلع دینے کی صورت میں سائل پر بچے کی پیدائش تک اپنی بیوی کا نان نفقہ دینا ضروری ہے،البتہ بچے کی پیدائش کے بعد صرف بچے کا نان نفقہ سائل کے ذمہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."

(كتاب الطلاق، باب العدة،ج:3، ص: 511، ط: سعيد)

وفيه ايضاّ:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير)."

(كتاب اطلاق، باب النفقة،ج:3،ص:612،ط: سعيد)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن."

(کتاب الطلاق،الفصل الثالث في نفقة المعتدة،ج:1،ص:557،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم